News

Story of a devotion

رحمان الله کا آبائی تعلق سوات کے علاقے مٹہ سے ہے لیکن وہ روزگار کی وجہ سے کچھ سالوں سے کراچی میں مقیم ہیں – رحمان الله پیشے کے اعتبار سے نرس ہیں اور انہوں نے نومولود بچوں کے شعبے یعنی نرسری میں کام کی خصوصی تربیت حاصل کی ہوئی ہے

ایک سال قبل جب سندھ کے صحرائی ضلع تھرپارکر سے بچوں کی اموات کی خبریں تواتر سے میڈیا میں آنا شروع ہوئیں تو پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے اس صورت حال میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا – ڈاکٹر فیاض عالم کی سربراہی میں سول ہسپتال مٹھی کی نرسری کو بہتر بنانے اور اسے بنیادی سہولیات سے آراستہ کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا گیا – نرسری میں آکسیجن کی لائن لگوائی گئی – نرسری اور لیبر روم کو دس لاکھ روپے کے ضروری آلات کا عطیہ دیا گیا اور سب سے اہم بات یہ کہ رحمٰن الله کو وہاں بھیج دیا گیا تاکہ ہسپتال کی نرسری کو کم از کم ایک تجربہ کار اور سند یافتہ تکنیشین کی خدمات حاصل ہوسکیں

رحمٰن فروری ٢٠١٥ میں مٹھی گۓ اور کام شروع کر دیا – اگلے ہی مہینے انہوں نے پانچ مقامی نوجوانوں کو تربیت کی غرض سے اپنے ساتھ شامل کر لیا جنہیں پیما ٧٥٠٠ ماہانہ مشاہرہ دے رہی ہے – گزشتہ ١١ ماہ سے سول ہسپتال مٹھی کی نرسری میں رحمٰن الله اور انکی پانچ رکنی ٹیم نے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں – ہسپتال کی انتظامیہ اس منصوبے سے پوری طرح مطمئن ہے اور انہوں نے پیما سے درخواست کی ہے کہ اس منصوبے کو مزید ایک سال کی توسیع دی جاۓ تاکہ وہ حکومت سندھ کے ذریعہ نرسری کے لئے سٹاف کی تقرری کروا سکیں

ایسا نہیں ہے کہ پیما کے اس منصوبے کے نتیجے میں وہاں کوئی بڑا انقلاب برپا ہوگیا ہو لیکن اتنا ضرور ہوا ہے کہ اب بچے علاج کے بغیر نہیں مرتے اور کم از کم ہسپتال کی حد تک نومولود بچوں کی شرح اموات میں کمی بھی ہوئی ہے – تھر میں نومولود بچوں کا وزن عام طور پر ١.٥ – دو کلو گرام ہوتا ہے جسکی بنیادی وجہ انکی ماؤں میں غذائی قلت کا ہونا ہے – اکثر حاملہ خواتین کا ہیمو گلوبن ٧-٨ سے زیادہ نہیں ہوتا – گھروں میں پیدائش کا عمل بھی نومولود بچوں میں بوقت پیدائش اور پیدائش کے بعد مختلف اقسام کے انفیکشن کا سبب بنتا ہے – پورے تھرپارکر میں کسی بھی ہسپتال میں وینٹیلیٹر کی سہولت کی عدم موجودگی بھی نومولود بچوں میں زیادہ شرح اموات کا ایک سبب ہے

پیما کو اس منصوبے کو مزید ایک سال جاری رکھنے کے لئے اہل خیر کا تعاون درکار ہے تاکہ تھر کے معصوم بچے موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکے اور علاج جو انکا بنیادی حق ہے ، وہ انھیں مل سکے – گزشتہ تین مہینے سے ہسپتال میں اینٹی با ئیوٹکس ادویات اور کینولا تک دستیاب نہیں ہے اور تقریباً ہر چیز مریضوں کے گھر والوں سے منگوائی جا رہی ہے

دسمبر ٢٠١٥ کے آخری دنوں میں رحمٰن الله کی شادی ہوگئی – انکی اہلیہ انکے ماموں کی بیٹی ہیں – رحمٰن الله کی شادی میں ہم کچھ دوستوں نے بھی شرکت کی تھی – انکے والد صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ اسے اب مٹہ ہی میں رہنے دیں لیکن مٹھی کی ریت اور سول ہسپتال کی نرسری کے بچوں کی محبت رحمٰن کو ولیمہ کے دو ہفتوں کے بعد ہی مٹھی واپس لے آئ – آپ سول ہسپتال کی نرسری میں رحمٰن الله کو اپنے کام میں مصروف دیکھ سکتے ہیں – انھیں تھر کے لوگوں سے محبت ہوگئی ہے !!!

(تحریر: ڈاکٹر فیاض عالم)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button