News

PIMA Thar Relief

Karachi, 20 February 2016: Demanding an immediate food emergency in Thar, the Pakistan Islamic Medical Association (PIMA) has offered the Sindh government to help it saving lives of newly-born children in the arid region.

An official of the association said their specialists, paediatricians and neonatologists could help train Thari youth to work at the government hospitals and the Rural Health Centres (RHCs) and save lives of malnourished children.

“We have provided equipment and trained manpower to upgrade a nursery at the Civil Hospital Mithi and our doctors and paramedics have trained local youth to save hundreds of precious lives. We can do the same for other hospitals in Thar and rest of Sindh, but the government would have to hire the trained youth so that they could work at those health facilities on a permanent basis”, PIMA Central President Dr Sohail Akhtar told a news conference at the Karachi Press Club.

thar 1

thar 2Accompanied by neonatologist and paediatrician Dr Azhar Chughtai, Dr Fayyaz Alam, Dr Ahmar Rehman and Dr Rao Naeem, he demanded the provincial government to launch a nutrition programme for the people of Thar.

“Majority of women in Tharparkar are malnourished and they are anaemic. When such women get pregnant, they give birth to underweight and weak children, who are more prone to diseases and ultimately die due to lack of health facilities in the area” Dr Akhtar said, adding that malnourishment due to poverty, lack of resources, unavailability of health facilities and untrained staff at hospitals were some of the biggest reasons behind high infant mortality in Thar.

Dr Azhar Chugtai claimed trained paramedics working in children units were sometimes more important than doctors as their training and experience help them in saving lives of infants.

“Trained paramedics can judge the problems of neonatal in nurseries by looking at them and sometimes they even guide doctors in saving their lives. We are ready to provide training to paramedics of Thar and establishment of child units at local hospitals so that high infant mortality rate could be brought down.”

Dr Syed Ahmar Rehman said over 70 percent women and majority of children in Thar were malnourished.

He demanded of the government to introduce a comprehensive nutrition project to overcome the nutritional deficiencies among women and children.

IMG-20160218-WA0004 - Copy

پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر پروفیسر ڈاکٹر سہیل اختر نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ تھرپارکر میں حاملہ خواتین اور بچوں کے لئے فوڈ ایمرجنسی نافذ کی جائے – اور تمام حاملہ خواتین کی رجسٹریشن کرکے انھیں دوران حمل غذائی قلت سے محفوظ رکھنے کا انتظام کیا جا ئے – انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تھرپارکر میں غذائی قلت نہیں اور علاج کی مناسب سہولتیں میسر ہیں وہ زمینی حقائق سے واقف نہیں ہیں – تھرپارکر پاکستان کا وہ بدقسمت ضلع ہے جہاں بچے پیدائشی غذائی قلت کا شکار ہوتے ہیں ، اس لئے کہ انکی مائیں غذائی قلت کا شکار ہوتی ہیں – ایسے بچے جنکا وزن پیدائش کے وقت کم ہو انکے جسم میں مختلف بیماریوں سے مدافعت کی قوت بھی کم ہوتی ہے – انہوں نے بتایا کہ سول ہسپتال مٹھی کی نرسری میں فروری 2015 سے جنوری 2016 کے دوران 12 مہینوں میں 1124 نوملود بچے داخل کیے گئے – ان میں سے 439 بچوں کا وزن نارمل تھا جبکہ 685 بچوں کا وزن 2.5 کلو گرام سے کم تھا – ان میں سے 671 بچے صحتیاب ہوکر ہسپتال سے گھر گئے جبکہ 256 بچے جانبر نہ ہوسکے – اس دوران 121بچوں کو وینٹی لیٹر نہ ہونے کی وجہ سے حیدرآباد یا کراچی ریفر کیا گیا – ڈاکٹر سہیل نے کہا کہ تھر میں حاملہ خواتین کی اکثریت کا وزن معمول سے کم ہوتا ہے اور ان میں خون کی کمی پائی جاتی ہے – یہی وجہ ہے کہ نومولود بچوں کی اکثریت کا وزن بھی معمول سے کم ہوتا ہے – انہوں نے کہا کہ سول ہسپتال مٹھی کی نرسری میں پیما گزشتہ سال فروری سے ایک منصوبے پر کام کررہی ہے جسکے نتیجے میں وہاں علاج کی سہولت میں کچھ بہتری ہوئی ہے – گو کہ اب بھی بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے – انہوں نے بتایا کہ فروری 2015 میں پیما نے سول ہسپتال مٹھی کی نرسری میں آکسیجن لائن نصب کروائی اور نرسری اور لیبر روم کو دس لاکھ روپے کے آلات اور مشینوں کا عطیہ دیا – صوبائی حکومت نے وہاں چار ڈاکٹروں کا تقررضرور کردیا تھا لیکن تربیت یافتہ عملہ فراہم نہیں کیا جاسکا تھا – لہٰذا فروری 2015 میں ہی پیما نے کراچی سے ایک سند یافتہ اور تربیت یافتہ سٹاف رحمٰن الله خان کو وہاں بھیجا – مارچ میں پانچ مقامی نوجوانوں کا تربیت کی غرض سے تقرر کیا گیا جنہیں پیما کی طرف سے ماہانہ وظیفہ دیا جارہا ہے – ڈاکٹر سہیل نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال سے ہمارا فراہم کردہ سٹاف سرکاری ڈاکٹرزکے ساتھ مل کر سول ہسپتال مٹھی کی نرسری کو چلا رہا ہے – بدقسمتی سے ہسپتال کی نرسری میں وینٹی لیٹر کی سہولت اب تک دستیاب نہیں ہے لہٰذا کچھ بچوں کو حیدرآباد اور کراچی ریفر کیا جاتا ہے – انہوں نے بتایا کہ ہسپتال انتظامیہ کی درخواست پر پیما نے اس منصوبے کو ایک سال کی توسیع دے دی ہے اور اب دسمبر 2016 تک ہمارا سٹاف وہاں خدمات سرانجام دے گا – اس موقع پر موجود ماہر امراض اطفال ڈاکٹر اظہر چغتائی نے بتایا کہ پورے سندھ میں نرسری کے لئے تربیت یافتہ عملے کی شدید کمی ہے – پیما نے سول ہسپتال مٹھی میں عملی مثال قائم کرکے ثابت کردیا ہے کہ اگر حکومت اور سماجی و پروفیشنل تنظیمیں مل کر کام کریں تو طبی و نیم طبی عملے کی نہ صرف بہتر تربیت ہوسکتی ہے بلکہ سرکاری ہسپتالوں میں تربیت یافتہ عملے کی میرٹ پر تقرری کے ذریعے سہولتوں کو بہت بہتر بنایا جاسکتا ہے – انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومت سے کوئی مالی مفاد نہیں چاہیے اور نہ ہی کسی قسم کی مراعات درکار ہیں – ہم سندھ کے عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور حکومت کو اپنے تعاون کی پیشکش کرتے ہیں – انہوں نے کہا کہ پیما صحت کے شعبے میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کی پروفیشنل تربیت کے لیے صوبائی حکومت کی مدد کرسکتی ہے اور اس طرح اندرون سندھ صحت کے شعبہ میں انقلابی بہتری لائی جاسکتی ہے –

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button